You must sign in Login/Signup

New student? Register here

An important facility for 12th class students preparing for short questions urdu 12th class chapter 25 of BISE. Get hundreds of questions to prepare and get better marks in 12th urdu
Generic placeholder image

0

Our database contains a total of 0 questions for urdu Short Questions. You’ll prepare using this huge databank.

Question: 1
درج زیل اشعار کی تشریح کریں اور شاعر کا نام بھی لکھیں. غزل -1- ہم کسی راہ سے واقف نہیں ، جوں نور نظر رہنما تو ہی تو ہوتا ہے، جد ھر جاتے ہیں
Answer: 1
1-13
شاعر: میردرد تشریح : خواجہ میر درد کہتے ہیں کہ آنکھ ہمیں جو مناظر دکھاتی ہے ہم وہ کچھ دیکھتے ہیں اور جو مناظر آنکھ سے اوجھل ہیں وہ ہم نہیں دیکھ سکتے. کسی راہ اور راستے سے ہماری واقفیت محض آنکھ کے نور کے طفیل ہوتی ہے. اور بے نور انسان راستہ کیا راستے کےنشان کو بھی دیکنے سے قاصر ہے. اسی طرح اللہ تعالی کی مرضی کے بغیر ہم کوئی قدم نہیں اٹھا سکتے. ہم جو عمل کرتے ہیں. وہ عمل چھوٹا ہو یا بڑا صرف اور صرف اللہ تعالی کی رہنمائی سے ہی ہو پاتا ہے.
Question: 2
درج زیل اشعار کی تشریح کریں اور شاعر کا نام بھی لکھیں. غزل -1- آہ معلوم نہیں، ساتھ سے اپنے شب و روز لوگ جاتے ہیں چلے، سو یہ کدھر جاتے ہیں
Answer: 2
2-13
شاعر : خواجہ میر درد تشریح :انسان کا دنیا میں آنے اور پھر چلے جانے کا سلسلہ ازل سے جاری ہے اور ابد تک رہے گا. معلوم حقائق کے باوجود میر درد ایک عمومی سوال اٹھا رہے ہیں کہ انسان چار دن کی زندگی کے بعد کہان چلا جاتا ہے ؟ انسان کی منزل کیا ہے؟ تجسس اور تحقیق کا یہ رجحان درد کے ہاں عام ہے. چشم تصور سے دیکھیں کہ کروڑوں انسان ازل کے اندھیروں سے نکل کر آرہے ہیں.کچھ دیر یہ قافلے روشنی میں رہتے ہیں اور پھر ابد کے اندھیروں میں گم ہورہے ہیں.
Question: 3
درج زیل اشعار کی تشریح کریں اور شاعر کا نام بھی لکھیں. غزل -1 - تا قیامت نہیں مٹنے کا، دل عالم سے درد ہم اپنے عوض ، چھوڑے، اثر جاتے ہیں
Answer: 3
3-13
شاعر: خواجہ میردرد تشریح : شاعر نے اپنی شاعری کی ایک خوبی بیان کی ہے. اسے شاعرانہ زبان میں تغلی کہتے ہیں. میر درد کہتے ہیں کہ دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے بے شک میرا جسد خاکی تو ختم ہورہا ہےاور میں تو اب کسی کو نظر نہیں آوں گا.لیکن میں دنیا کو ایک تحٍفہ دے رہا ہوں وہ تحفہ میرا درد بھر پر تاثیر کلام ہے- خواجہ میر درد کے اس شعر سے ایک بڑا سبق ملتا ہے کہ اس مدی دور میں روپے پیسے کی ہوس نے انسان کو شرف انسانیت سے گرا دیا ہے. گزشتہ ایک صدی کے بڑے بڑے لوگوں کی زندگی پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو ہزاروں کروڑ پتی ہوں گے. جو خاک میں ملے تو آنکھ اوجھل کے مصداق گم نام ہوگئے.
Question: 4
درج زیل اشعار کی تشریح کریں اور شاعر کا نام بھی لکھیں. غزل -2- جوں شمع جمع ہوویں گر اہ زبان ہزار آپس میں چاہیے کہ کبھی گفتگو نہ ہو
Answer: 4
4-13
شاعر: خواجہ میر درد تشریح : شمع، شاعری میں ضبط نفس کی علامت ہے کہ یہ عشق میں خاموشی سے جلتی ہے اور پگھل کر ختم ہوجاتی ہے. لیکن آہ و فغاں نہیں کرتی. میردرد اسی شمع کی مانند عشاق کو خاموشی سے اللہ کے حضور دیکھنے کے متمنی ہیں. وہ چاہتے ہیں کہ عشق حقیقی میں مبتلا اگر ہزاروں عشاق بھی اکھٹے ہوں تو انہین چاہیے کہ شمع کی مانند خاموشی سے اللہ کی یاد میں جلتے رہیں مگر اہ نہ بھریں کہ عشق و محبت کا تقاضا یہی ہے . خموشی ہی گفتگو ہو اور بے زبانی زبان بن جائے.
Question: 5
درج زیل اشعار کی تشریح کریں اور شاعر کا نام بھی لکھیں. غزل -1- بے ہنر ، دشمنی اہل ہنر سے آ کر منہ پہ چڑھتے تو ہیں ، پر جی سے اترجاتے ہیں.
Answer: 5
5-13
تشریح :میر درد کے اس شعر میں اس دور کے ملکی حالات کا عکس موجود ہے. مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد دلی لوٹ مار کا شکار تھی. کبھی نادر شاہ نے کبھی احمد شاہ ابدالی اور کبھی مرہٹوں یا جانوں نے اس مشق ستم بنایا. میر درد کہتے ہیں کہ کتنے ہی جاہل اور بے ہنر محض طاقت اور قوت کے زور پر اہل فن اور اہل علم کے مقابل آ جاتے ہیں. وقتی طور پر فریق ثانی کو زیر بھی کرلیتے ہیں ٌلیکن ایسے لوگ دلوں میں گھر نہیں کرسکتے اور بے وقعت ہوکر نظروں سے گر جاتے ہیں.
Question: 6
درج زیل اشعار کی تشریح کریں اور شاعر کا نام بھی لکھیں. غزل -2- کیا فرق داغ و گل میں ، کہ جس گل میں بو نہ ہو کس کام کا وہ دل ہے کہ جس دل میں تو نہ ہو
Answer: 6
6-13
شاعر: خواجہ میردرد تشریح : خواجہ میردرد کہتے ہیں کہ ایسا پھول جو خوشبو سے محروم ہو وہ ایک رنگین دھبا ہے بے قدر وقیمت اور ناقابل التفات کے پھول کی خوبی اور پہچان تو اس خوشبو سے ہے. اسی طرح ایسا دل جس میں اس زات باری کا جلوہ موجود نہ ہو وہ محض ایک لوتھڑا ہے ، خون اور رگ وریسے کا ایک ٹکڑا ہے اور بے فائدہ ہے اور بے سود ے. صوفی کے ہاں دل ائینہ ہے جس میں تصویر یا نظر آتی ہے.
Question: 7
درج زیل اشعار کی تشریح کریں اور شاعر کا نام بھی لکھیں. غزل -2- ہو دے نہ حول و قوت اگر تیری درمیاں جو ہم سے ہو سکے ہے ، سو ہم سے کبھو نہ ہو.
Answer: 7
7-13
شاعر: خواجہ میردرد تشریح : خواجہ میر درد ایک بری حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے اللہ تعالی کی عظمت اور بڑائی بیان کرتے ہیں کہ اگر اللہ تعالی کی مدد حاصل نہ ہو تو ہم جو کچھ کر رہے ہین ہو کبھی نہ کرپائیں. یہ اللہ تعالی کی زات ہے جو برتر اور عظیم ہے جس اپنے کارخانہ قدرت پر کامل دسترس ہے اور اس کی مرضی کے بغیر ایک پتا بھی حرکت نہی کرسکتا.اور یہ کہ تمام مخلوق اس کی مرضی کے مطابق کارخانہ قدرت میں اپنا کردار ادا کررہی ہے. اگر رب کی توفیق و تائید نہ لو تو انسان کچھ بھی نہیں کرسکتا.
Question: 8
درج زیل اشعار کی تشریح کریں اور شاعر کا نام بھی لکھیں. غزل -1 کام مردوں کے جو ہیں، سو وہی کر جاتے ہیں جان سے اپنی جو کوئی کہ گزر جاتے ہیں
Answer: 8
8-13
شاعر : میر درد تشریح : اگر چہ دنیا بے ثبات ہے اور ہماری زندگی ناپایدار ہے لیکن کوتاہ نظر انسان اپنی نا عاقبت اندیشی اور کو تاہ بیتیکی بنا پر دنیا اور زندگی کو عزیز رکھتا ہے- اور کسی طور جان دینے کو تیار نہیں ہوتا. میردرد کہتے ہیں کہ مردان حق کہلانے کے مستحق صرف وہ ہیں جو راہ خدا میں نذرانہ جاں پیش کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے. دنیامیں بڑے کارنامے ایسے ہی لوگوں نے انجام دیے بلکہ اگر یوں کہا جائے کہبہادر اور جان کی پروا نہ کرنے والے انسانوں نے ہواؤں کا رخ بدلا اور انقلاب برپا کیے تو بے نہ ہوگا. اس کے برعکس تاریخ بتاتی ہے کہ جو موت سے ڈرتے رہے وہبے بسی کی موت مرگئے.
Question: 9
درج زیل اشعار کی تشریح کریں اور شاعر کا نام بھی لکھیں. غزل -1 - موت ! کیا آ کے فقیروں سے تجھے لینا ہے مرنے سے آگے ہی، یہ لوگ تو مر جاتے ہیں
Answer: 9
9-13
تشریح : اہل تصوف کے نزدیک طبعی موت سے پہلے نفس امارہ کی موت ضروری ہے- اگر نفس امارہ کی موت سے پہلے طبعی موت آ جائے تو صوفی کی زندگی ناکام سمجھی جائے گی. نفس امارہ انسانی خواہشات کی شکل میں انسان کی دنیا میں ملوث کرتا ہے اور دنیا اور اس کے مال و اقتدار کی محبت اس کے دلون میں پختہ کرتا رہتا ہے. انسانی وجود کے بارے میں اہل تصوف کا نقطہ نظریہ ہے کہ انسان حقیقت کل یعنی اللہ تعالی کی زات کا حصہ ہے.اور اس کا جزو کا کل میں ضم ہوجانا ہی اصل مقصد حیات ہے.
Question: 10
درج زیل اشعار کی تشریح کریں اور شاعر کا نام بھی لکھیں. غزل -1- دید دا دید جو ہو جائے غنیمت سمجھو جوں شرر، ورنہ ہم، اے اہل نظر ، جاتے ہیں
Answer: 10
10-13
تشریح: خواجہ میر درد صرف خود صوفی تھے بلکہ صوفیہ کے سرخیل تھے. والد کی وفات کے بعد جب انہوں نے سجادہ نشینی اختیار کی تو زندگی کا رخ بدل گیا. قناعت و توکل اور تسلیم رضا ان کا اثاثہ حیات تھا.اور تصوف سے ان کی طبیعی موافقت کی وجہ سے ان کی شاعری میں متصوفانہ مضامین کی کثرت ہے. دراصل ہر انسان کی زندگی کا ایک مقصد ہے اور وہ طے شدہ ہے. انسان کے رب اور مالک نے وہ طے کردیا ہے. ایک منزل کا تعین بھی ہوچکا . اس مقصد حیات کے حصول کے لیے مختلف مکاتب فکر نے مختلف طریق ہائےکار اختیار کیے. ان میں رب کی رضا کا حصول سب سے بڑا مقصد ہے. صوفی اسے چلہ کشی اور ریاضت سے حاصل کرنا چاہتا ہے.
Question: 11
درج زیل اشعار کی تشریح کریں اور شاعر کا نام بھی لکھیں. غزل -2- جو کچھ کہ ہم نے کی ہے تمنا ، ملی مگر یہ آرزو رہی ہے کہ کچھ آرزو نہ ہو
Answer: 11
11-13
شاعر: خواجہ میر درد تشریح : میردرد کہتے ہیں کہ ہم نے جو بھی خواہش کی جو مانگا اور جو چاہا اللہ تعالی نے وہ سب کچھ دیا لیکن میری یہ تمنا ہی رہی کے اس زات سے کچھ طلب نہ کیا جائے ہر آرزو کو دل سے نکال دیا جائے. وہ جس حال میں رکھے جو کچھ عنایت کرے وہ کم ہو یا زیادہ اسی پر قناعت کی جائے. یہاں شاعر دراصل راضی بہ رضا رہنے کی آرزو کا اظہار کررہا ہے. جس حال میں رکھے اس پر شکر ادا کرنا اور مزید کی تمنا نہ کرنا ہی ایک صوفی کی سب سے بڑی آرزو ہوتی ہے.
Question: 12
درج زیل اشعار کی تشریح کریں اور شاعر کا نام بھی لکھیں. غزل -2- جوں صبح ، چاک سنہ مرا، اے رفو گراں باں تو کسو کے ہاتھ سے ہرگز رفو نہ ہو
Answer: 12
12-13
شاعر: خواجہ میر درد تشریح : ًمحبت کے دکھ اٹھاتے ہوئے عشق کو بعض اوقات سینے پرزخم لگتے ہیں. اور یہ زخم نہ مند مل ہوتے ہیں. نہ عشق تندرست ہوتا ہے. مریض محبت لادوا ہو جاتا ہے. شاعر نے یہاں سینے کے چاک یا شگاف کو صبح سے تشبیہ دی ہے کہ صبح طلوع ہوتی ہے تو پھر پھیلتی جاتی ہے اور کسی کے بس کا روگ نہیں رہتا کہ چاک صبح کو سی سکے.
Question: 13
درج زیل اشعار کی تشریح کریں اور شاعر کا نام بھی لکھیں. غزل -2- اے درد زنگ صور اگر اس میں جا گرے اہل صفا میں ائینہ دل کو رو نہ ہو
Answer: 13
13-13
شاعر: خواجہ میر درد تشریح : میر درد ایک صوفی منش انسان تھے اور تصوف سے گہرا شغف تھا. اس لیے ان کی شاعری میں تصوف کی اصطلاحات بار بار آتی ہے. صوفیہ یہ سمجھتے ہیں کہ گناہ کی روش سے انسانی دل کو اسی طرح زنگ لگتا ہے جس طرح دھوپ اور بارش میں لوہا پڑا رہے تو زنگ آلود ہوجاتا ہے. اور زنگ اسے ڈھانپ لیتا ہے. میردرد کہ رہے ہیں کہ اگر دل کے ائینے کو زنگ ڈھانپ لے تو پھر روئے محبوب اس میں نہیں دیکھا جاستکا چونکہ محبوب حقیقی کی دید ہی صوفیہ کے ہاں انسان کے تکمیل اور کامیابی ہے اس لیے وہ گناہوں سے نہ صرف بچتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی بچنے کی تاکید کرتے ہیں تاکہ باطن گناہوں سے الودہ نہ ہو اور محبوب حقیقی کی دیدکا سامان میسر رہے.